تر ےزخم حاصل ہیں زیست کا,انہیں کھو بھی نہیں سکتا
گھٹ گھٹ کر جیتاہوں,زمانےکےسامنےروبھی نہیں سکتا
توامیرشہرکی بیٹی ہےخواب دیکھتی ہےنت نئےجان تمنا
میں مزدور کی اولاد ہوں سکون سے سو بھی نہیں سکتا
مجھ سے ملنےآیا کسی او ر کانام اپنے نا م سے جوڑ کر
آہ!وہ شخص کہتاتھاترےسواکسی اورکاہوبھی نہیں سکتا
اتنی بےدردی سےتوڑا تو نے اعتماد مرا محبتوں سےظالم
اجڑنےکے خوف سےمیں تعلق کےبیج بو بھی نہیں سکتا
وہ خط ترے وہ تحفے ترے سب جلا دیے میں نے حمیرا
ہائےمحبت تری دل میں ہےاسےتو دھو بھی نہیں سکتا