اس شوخ کا مسحور حسن دیکھ رہا ہوں
فطرت کا یہ بے ساختہ پن دیکھ رہا ہوں
رنگوں کا آرزو سے ملن دیکھ رہا ہوں
تتلی کو خوشبوؤں میں مگن دیکھ رہا ہوں
حیراں ہوں اپنی آنکھ کی پر راز خطا پر
جلتا ہوا گلوں کا بدن دیکھ رہا ہوں
یہ اسکا فیض ہے کہ بہاریں ہیں چار سو
تاحد نظر صحن چمن دیکھ رہا ہوں
ہے میری ہتھیلی میں نہاں چاند کا پرتو
ہاتھوں کی لکیروں میں کرن دیکھ رہا ہوں
دیکھا کسی کا عکس تو ایسا لگا مجھے
مانوس بت تراش کا فن دیکھ رہا ہوں
جو لب پہ کبھی آ سکے نہ میرے تمہارے
وہ لفظ سر بزم سخن دیکھ رہا ہوں