سینے میں وہی آگ لگانے سے رہے ہم
مر مر کے تیرے ناز اٹھانے سے رہے ہم
پہلے ہی دے چکے ہو بہت نیک نامیاں
دامن پہ نئے داغ لگانے سے رہے ہم
عالم کا ایک حسن ہے یہ اختلاف بھی
ہر ایک کو تو اپنا بنانے سے رہے ہم
آتی ہیں ان میں اپکی کچھ بے وفائیاں
ہر راز تو دنیا کو بتانے سے رہے ہم
ہیں خوشبوئیں بکھیرنا الفاظ کا مقصد
بارود کا دھواں تو اڑانے سے رہے ہم
کل رات چکوروں نے کہا مد و جزر سے
مہتاب کو سینے سے لگانے سے رہے ہم
واجب ہے تیرا شوق مگر رشک بہاراں
ہاتھوں کی لکیریں تو مٹانے سے رہے ہم
دنیا میں کئی اور بھی غم ہیں میرے حضور
ہر شعر میں تو تم کو بسانے سے رہے ہم