ہان تیری محبت کے مجرم
وصال کیلئے تڑپ رہے ہیں
پھر تیری سوچوں کی ہتھکڑی
پہنکر گرفتار ہوگئے ہیں
کوئی اظہار کا قیدی
اس حسرت پہ جیتا ہے کہ
اک بار مجھے آواز مل جائے
تو ہر چھُپا راز کھل جائے
مگر دل کی تاکیدی ہونٹوں پر بھٹکتی ہے
اور آنکھ اپنے کتنے دریاء اچھلتی ہے
پھر بھی تمہاری چھوڑی ہوئی یادیں
اور کچھ بے ساختہ محفلیں
کسی غیر کے ہاتھ لگ گئی ہیں
مئخانے میں اُس کا جام چھلکتا ہے
یا کوئی درد کا مارا روتا ہے
ہم گبھرا گئے
نشے میں لڑکھڑا گئے
یہ الغرض دینا مجھے واعظ سے
کہنے آئے تھی کہ
تو نے خوابوں کی دنیا بسائی ہے
اور ان میں بہل کر خوب سزا پائی ہے
تیری لکیروں میں لکیر کھینچنے والا
اور تیری تقدیر بنانے والا
وہ میرا بھی خدا ہے لیکن
عظمت کے چادر تیرے سَر پر
جیسے ہم کو تیرا سایہ ہونا پڑے
اور ایک اُدھار کی زندگی جینی پڑی