ہاۓ میری رسوائی

Poet: سنیل مالہی By: Sunil Kumar, Umerkot

،کتنی ساری باتیں کہہ دیں میں نے
،‎ساری کی ساری باتیں کہہ دیں میں نے
،‎پر تمہیں سمجھ میں ایک بھی نہ آئی
‎ہاۓ میری رسوائی۔

،‎تمہارے حجر میں رہے مرنے کے ہی وسوسے
،‎تم گر ساتھ ہوتی تو جینے کی مجبوری ہوتی
،‎پر مجھے نہ موت آئی نہ تو ہی لوٹ کر آئی
‎ہاۓ میری رسوائی۔

،‎تم گر ساتھ ہوگی تو کیا کوئی غم نہیں ہوگا
،‎گر ہوگا بھی تو کیا تمہارے پاس مرہم نہیں ہوگا
،‎پر تو نے مرہم لگایا نہ میرا زخم چھوہا ئی
‎ہاۓ میری رسوائی۔

،‎ڈھلتا سورج سکوں دیتا مجھے بھی
،‎رات کے کئی راز میں کہتا تجھے بھی
،‎پر تو کبھی میرے ساتھ چھت پر نہ آئی
‎ہائے میری رسوائی۔

‎حالاتوں کا مارا میں بھی ہوں رواجوں کی مجبور تو بھی ہے
،‎انسان میں بھی ہوں اور انسان تو بھی ہے
،‎پر تو ہی کیوں اظہار محبت نہ کر پائی
‎ہاۓ میری رسوائی۔

،‎میری آنکھوں کے آنسو سوکھ گئے
،‎تیری یادوں کے دریا روٹھ گئے
،‎میں نے عمر اپنی ساری گنوائی
‎ہاۓ میری رسوائی۔

،‎خواہشیں سب ادھوری کوششیں ساری ناکام
،‎اک خدا کی کرنی ہوئی دوجا سماج کا نظام
،‎قسمت بھی وہ پائی جس میں تو نہ آئی
‎ہاۓ میری رسوائی۔

Rate it:
Views: 7
16 Oct, 2025
More Love / Romantic Poetry