ہجر سے جاں کنی نہیں ہوتی
بن ترے زندگی نہیں ہوتی
لفظ دو چار جوڑ لیتے ہو
یوں جگر شاعری نہیں ہوتی
چھوڑ جاتی ہے آخرش عورت
دودھ کی کوئی دھلی نہیں ہوتی
ہو بھی عورت کرے وفا ہر دم
کوئ اتنی بھلی نہیں ہوتی
اس سے کہہ دو کہ ہے یہ پاگل پن
ہر جگہ دل لگی نہیں ہوتی
صرف ہم پہ ہی کیوں ہے پابندی
کس جگہ میکشی نہیں ہوتی
کون ہے آج رونقِ مقتل
کیوں ہماری کمی نہیں ہوتی
آج کل تاک میں نہیں میری
بام پر وہ کھڑی نہیں ہوتی
سب ترے ہجر کی عنایت ہے
اب میسر خوشی نہیں ہوتی
میں ترے ہجر کو بساؤں گا
مجھ سے پھر دل لگی نہیں ہوتی
کیسے آتا ہے ان پہ دل باقرؔ
حور یا کوئ پری نہیں ہوتی