ہجر سے جاں کنی نہیں ہوتی
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiہجر سے جاں کنی نہیں ہوتی
بن ترے زندگی نہیں ہوتی
لفظ دو چار جوڑ لیتے ہو
یوں جگر شاعری نہیں ہوتی
چھوڑ جاتی ہے آخرش عورت
دودھ کی کوئی دھلی نہیں ہوتی
ہو بھی عورت کرے وفا ہر دم
کوئ اتنی بھلی نہیں ہوتی
اس سے کہہ دو کہ ہے یہ پاگل پن
ہر جگہ دل لگی نہیں ہوتی
صرف ہم پہ ہی کیوں ہے پابندی
کس جگہ میکشی نہیں ہوتی
کون ہے آج رونقِ مقتل
کیوں ہماری کمی نہیں ہوتی
آج کل تاک میں نہیں میری
بام پر وہ کھڑی نہیں ہوتی
سب ترے ہجر کی عنایت ہے
اب میسر خوشی نہیں ہوتی
میں ترے ہجر کو بساؤں گا
مجھ سے پھر دل لگی نہیں ہوتی
کیسے آتا ہے ان پہ دل باقرؔ
حور یا کوئ پری نہیں ہوتی
More Love / Romantic Poetry






