ہجر میں روز جلتے جلتے میں تھک گیا ہوں
خالی ہاتھوں کو ملتے ملتے میں تھک گیا ہوں
جان جاں اب تو شرف حاصل ہو دید کا بھی
ہجر کے سنگ چلتے چلتے میں تھک گیا ہوں
میں زمانے کی جعل سازی میں ڈھل نہ پایا
پر زمانے میں ڈھلتے ڈھلتے میں تھک گیا ہوں
چھوڑ جا میری مفلسی مجھ کو چھوڑ جا تو
گود میں تیری پلتے پلتے میں تھک گیا ہوں
اب تری یاد سے گزارہ نہ ہو سکے گا
اب اکیلے میں چلتے چلتے میں تھک گیا ہوں
لوٹ آ میرے چاند اب تو ، تو لوٹ بھی آ
ساتھ سورج کے ڈھلتے ڈھلتے میں تھک گیا ہوں
طعنہ اب کوئ بھی ملا تو نہ سہہ سکوں گا
روز لوگوں سے ٹلتے ٹلتے میں تھک گیا ہوں
اب مسیحائ کی ضرورت سی پڑ گئ ہے
زخمی پاؤں پہ چلتے چلتے میں تھک گیا ہوں
مجھ کو باقرؔ تمہاری یادوں سے پیار ہے پر
اب کے یادوں میں گلتے گلتے میں تھک گیا ہوں