ہجرتوں کا سلسلہ ہے کس لئے
نیند آنکھوں سے جدا ہے کس لئے
آؤ مل کر بانٹ لیں اپنی خوشی
ایک ہیں تو فاصلہ ہے کس لئے
ہاتھ میرے ہاتھ دو اور چل بھی دو
یہ وفا کا راستہ ہے کس لئے
مت اٹھاؤ انگلیاں کردار پر
زندگی کا آئینہ ہے کس لئے
زخم کی شاخیں ہری ہیں جسم پر
درد پھر بھی بے صدا ہے کس لئے
قید ہوں کب سے انا کے جال میں
زندگی بجھتا دیا ہے کس لئے
گر اسے وشمہ مجھے ملنا نہیں
پھر دریچے میں ضیا ہے کس لئے