ہر ایک بات پہ تم خوش رہو تو اچھا لگے
تم اسکے ظلم بھی ہنس کر سہو تو اچھا لگے
چلے ہو سیرِ چمن کو مثالِ نکہتِ گلُ
ہو ا کا ہاتھ بھی گر تھام لو تو اچھا لگے
نظر بچا کے مرِی سمت چور آ نکھوں سے
تم اب بھی پیار سے دیکھا کرو تو اچھا لگے
یہ آرزو ہے کہ اِک بار اجنبی بن کر
ہمارے شہر میں کچھ دن رہو تو اچھا لگے
غلط سی بات ہو میری ، مگر مرِی خاطر
ہر ایک بات پہ " اچھا" کہو تو اچھا لگے
زبانِ خلق جو کہتی ہے غائبانہ تمہیں
وہ بات تم بھی اگر مان لو تو اچھا لگے
سبھی کی متفقہ رائے ہے کہ انور میاں
جو تھوڑی دیر کو تم چپ رہو تو اچھا لگے