ہر تراشا ہوا پتھر دیوتا ٹھہرے
میرے مسجودِ محبت بھی آج خد ا ٹھہرے
اک وقت کہ سانسوں کی ڈور ہی نہ سلجھتی تھی
اور آج زندگی کا ہر لمحہ میرے سوا ٹھہرے
پتھروں کے دیس میں شیشے جیسے خواب سجائے
آئے باغیِ تمدن بتا کہاں اب وفا ٹھہرے
میری خودی کو سکوں میرے بکھرنے سے ہے
یا پھر میرا جینا ہی جینے کی سزا ٹھہرے
میری آغوش میں وہ لذتِ لمس سے آشنا ہوا
اور اُس کی آغوش آج اپنی فنا ٹھہرے
کیسے بھول جاؤں میں اُس درد کے پیامبر کو وصل
اک لمحہ بھی جو رہوں غافل تو زندگی گناہ ٹھہرے