ہر خیال خوشبوءُُ کر بیٹھ گئے
ہم کون سی جستجو کر بیٹھ گئے
عکس اور بھید چھپانے کی ضد میں
آئینے کو ہی روبرو کر بیٹھ گئے
جب اداسیوں نے اپنے گیسوُ سنوارے
ہم حال بھی ہوبہو کر بیٹھ گئے
رسم الفت میں رسوائی ہے بہت
اور ہم محبت کی آرزو کر بیٹھ گئے
یہ شوق بھی سنتوشؔ دوکھا لگتا ہے
مگر دلوں کو پَس رُو کر بیٹھ گئے