ہر راز چھپانے کا اچھا سا بہانہ ہے
نظروں کو جھکانا ہے اشکوں کو بہانا ہے
اک پھول سے چہرے کو دل میں بسانا ہے
اب دل میں وفاؤں کا انمول خزانہ ہے
بے چین وفائیں یا بیدرد جفائیں ہوں
تقدیر کے ہاتھوں میں تصویر زمانہ ہے
موجوں نے بتایا ہے ہر ڈوبنے والے سے
طوفان کا کشتی سے رشتہ یہ پرانا ہے
جینے کی تو قاسم اب حسرت ہی نہیں کوئی
دشمن وہ نگاہیں ہیں دشمن یہ زمانہ ہے