ہر رنج و غم سے بالا ہوں
میں اپنے آپ میں اعلیٰ ہوں
جسکی محبت راس نہ آئ
اسکا غم بھی پالا ہوں
ہجومِ رسوائ میں بھی
اپنا آپ سنبھالا ہوں
تنہائ کی آگ میں جل کر
اپنا خون اُبالا ہوں
خواب سجا کر آنکھوں میں
ہر شب نیند کو ٹالا ہوں
اُداسی پاس ہی رہتی ہے
میں اسکا رَکھ والا ہوں
دھیرے دھیرے سمیٹو تم
ٹُوٹا ہوا اِک مالا ہوں
آنکھیں پھیکی لگتی ہیں
رنگ خوشی کا ڈالا ہوں
نہ بہلاؤ دلاسوں سے
میں حقیقت والا ہوں
دوہراینگے لوگ جسے
عشق کا وہ حوالا ہوں
حُسینؔ ! تم تو پہچانو
تمھارا دیکھا بھالا ہوں