ہر روش مجھ میں تو وقت معین تک بستا رہا
الجھنوں نے استقلال توڑدیا اور زمانہ ہنستا رہا
ان روپ بدلتے چہروں میں کسے مستقل مزاج سمجھوں
اعتبار تھا بھی ایک مہلک بیماری اور درد بڑہتا رہا
اپنی ہی آواز ہونٹوں پر لاکر گمراہ ہوگئے
بڑی بے بس رہی عرضی یہ جہاں کٹتا رہا
یہ دروغی دنیا پیار پر تہمت لگانے سے باز نہ آئی
سلوک تو ضبط سے باہر مگر دشوار وقت گذرتا رہا
بے لطفی ہے مگر اپنی فضیلت کو کیسے بے جان کریں
کچھ شجاعت رکھی اور کچھ خیالوں میں دل بہلتا رہا
یہ رعیت گیری صداقت سے بدخواہی رکھتی ہے سنتوشؔ
بدر ہوکے بھی ایک دیوانہ یوں محبت مانگتا رہا