ہر سو سینے میں سناٹا رہا
پھر کون یہاں آتا جاتا رہا
جھونکا تھا کوئی ہوا کا شاید
جو در درد دل کھٹکھٹاتا رہا
کتنا گہرا ہوا رشتہ ان سے
میں بھولاتا رہا وہ یاد آتا رہا
ہمت نہ ہارا طوفان میں بھی پھنس کے
ساحل کی طرف ہاتھ بڑھاتا رہا
آئے گا ضرور میرے خواب میں
لوریاں دے خود کو سولاتا رہا
حجاب میں رہے کے بھی ظلم
لذت ذوق اور بھڑکاتا رہا
کس کے واسطے تو قرباں ہوا اے دل
کون تھا جو تجھے بھی بہکاتا رہا
امتحاں میرے جذبات کے تو لے گا بھی کتنے
تو کانٹے میں تیری راہوں میں پھول بچھاتا رہا
ارشد اب سمجھا اس کی مکاریوں کو
پہلے سمجھتا نہ تھا میں سمجھاتا رہا