ہر شخص کی شخص سے شکایت بڑہ چکی ہے
یہاں طعن اور تشنیع کی روایت بڑہ چکی ہے
کوئی تکبر سے کہتا ہے کوئی کہہ کر مکرتا ہے
روز کے معمول یہی اشاعت بڑہ چکی ہے
عہد و شرط پہ بڑا شور و غل جہاں میں
رسم سنجیدگی میں بھی عداوت بڑہ چکی ہے
کوئی بھی دامن کہیں باضابطہ نہیں رہتا
دغاؤں کی بھی باطل عنایت بڑہ چکی ہے
یہاں زبان بھی عیاں کچھ نہیں کرتی
نگاہ ہی نگاہ میں رسالت بڑہ چکی ہے
وہ سب تقلیدیں اب مثالیت پر ہی آگئی
وعظوں کی بے جا یہ وضاحت بڑہ چکی ہے
فرد ارمان کے خلاف دستور ہیں مزاج
ابکہ فنائی کی سنتوشؔ علامت بڑہ چکی ہے