ہر طبیعت کو توقف رہا اُبھار کے بغیر
کچھ ایسے خیال پڑے ہیں خُمار کے بغیر
گمراہی میں تدبیروں سے پھر پوُچھ لو کہ
کس کس کو منزل مل گئی دُشوار کے بغیر
فدائی وہ جو قابل تعظیم لگے سب کو
شہادت نہیں ملتی کبھی ایثار کے بغیر
یہ آسائشیں تنہائی سے مُنکر تو نہیں لیکن
کثیر فضوُل ہے سب کچھ سنسار کے بغیر
پھولوں پہ شبنم نے بوندیں ہی چھڑکی تھی
ایسے لمحوں کو رنگت مل گئی بہار کے بغیر
ہر دل کے مکان میں محبت پنہاں ہے مگر
کئی ایسے ارمان گذُر گئے اظہار کے بغیر