ہر طرف اک شباب ہے ساقی
آرزوئے شراب ہے ساقی
مائل انقلاب ہے ساقی
حسن پھر بے نقاب ہے ساقی
پھر جوانی کا آگیا موسم
پھر ادائے حجاب ہے ساقی
جاہ و حشمت کی ہے طلب کس کو ؟
بس سوال شراب ہے ساقی
لہر اٹھی ہے ساغر دل میں
کیا عجب پیچ و تاب ہے ساقی
وہ ، جسے مے سے کچھ نسبت ہے
آدمی، کامیاب ہے ساقی
کیا گناؤں صفات ساغر کی
یہی تعبیر خواب ہے ساقی
ہر نئی لہر اک نیا مضموں
کیسی روشن کتاب ہے ساقی
دیکھئے مے پرستوں کا چہرا
پرتو آفتاب ہے ساقی
ہجو مے کرنے والوں کے گھر میں
ہر گھڑی اضطراب ہے ساقی
میکدے میں جو مانگی جاتی ہے
وہ دعا مستجاب ہے ساقی
آج شیشے پہ شیشہ لوٹ گیا
کون مست و خراب ہے ساقی
حسن میں لاکھ پیچ و تاب سہی
عشق سادہ نصاب ہے ساقی
مضطرب جس نے آدمی کو کیا
روش اجتناب ہے ساقی
تیری نسبت کے صدقے رومی پر
کرم بے حساب ہے ساقی