ہر طرف پھیل رہی ہیں ویرانیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
منظروں میں چھپ گئی کہانیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
ضبط تشنگی میں اب مزاحمت نہیں رہی مگر
تردید اعتراض ہیں خاموشیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
میں کئی وسعتوں سے کتراکے گذرتا آیا ہوں
اب جینے نہیں دیتی مہربانیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
عیاں تو حالتوں میں شدت ہی نہ تھی پھر
کیسے بڑہ گئی سرکشیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
دل کے کئی احاطے ابکہ سبزہ زار نہیں رہے
محبت ہار چکی یہ بازیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ
تم لمحہ طبیعت کو کس طرح تولو گے سنتوشؔ
یہاں ہر پہلو کی اپنی اکائیاں ذرا ٹھہر کے دیکھ