ہر چہرہ ایک نقاب ہے سمجھنے میں بڑی دیر لگے گی
کہاں ملے گا اپنا مزاج الجھنے میں بڑی دیر لگے گی
میری گلستانوں کو درد کی صدا نہ دے کبھی
کہیں سوکھا پڑا تو شاداب ہونے میں بڑی دیر لگے گی
ہر بار محبت سے تعاقب کرتے آیا ہوں مگر
پتہ بھی تھا کہ بے داغ ہونے میں بڑی دیر لگے گی
حسرتوں کے پیچھے باضابطہ نہیں رہتے لوگ
پھر نہ کہنا زندگی عذاب بننے میں بڑی دیر لگے گی
لفظ لفظ سے بنتے ہیں فقری تم جوڑتے ہی رہو
مدبر پھر یہ کتاب بننے میں بڑی دیر لگے گی
تمہیں اب سے لمحوں کی قدر کرنی چاہیے سنتوشؔ
گذر گیا پل تو حساب گننے میں بڑی دیر لگے گی