ہم اس فضا میں اپنی صدا چھوڑ دیتے ہیں
اور کون ہے مرا تو بتا چھوڑ دیتے ہیں
تم لوٹنے کا وعدہ کرو تو سہی ذرا
ہم تیرے راستے میں دیا چھوڑ دیتے ہیں
مٹی میں پاتا ہے نمو جب عشق اور وفا
پتھر کے جیسے لوگ وفا چھوڑ دیتے ہیں
تم دیکھتے نہیں ہو دھواں اٹھتا ہے جو بھی
یہ زہر سے بھری ہے ہوا چھوڑ دیتے ہیں
مطلب تلک ہے بغض کی یاری زمانے میں
سوکھے شجر کو گرتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں