لوگ اپنی آنکھوں میں دولت کہ خواب رکھتےہیں
ہم اپنی آنکھوں میں محبت کا سیلاب رکھتے ہیں
کتاب زیست میں درد کہ کہ سوا کچھ نہیں
مگر سہانی یادوں کا ایک باب رکھتے ہیں
کسی کی محبت میں کیا کھویا کیا پایا
ایسی باتوں کا ہم کہاں حساب رکھتے ہیں
ہمارے دشمنوں کا تو کوئی معیار نہیں
لیکن دوست سبھی لاجواب رکھتے ہیں
ہماری راہوں میں وہی کانٹے بچھاتے ہیں
جن کے راستے میں ہم گلاب رکھتےہیں