ہر تعلق میں محبت کے فسانے نکلے
خود کو سمجھے تھے نئے لوگ پرانے نکلے
بادہ ء عشق بلا خیز جوانی میں پیا
دل کم سن پہ ہی ہم زخم لگانے نکلے
ہم کہ مے نوش نہ رندی کا سلیقہ پھر بھی
آج ہم عشق کی مے پینے پلانے نکلے
معتبر گو کہ نہ تھے رکھتے تھے توقیر ذرا
آج رسوائی ء الفت کو زمانے نکلے
ایک دنیا کو ہے مٹتا ہوا دیکھا ہم نے
ہم تری راہ میں جب خود کو مٹانے نکلے
ہم رجالوں کا جنہیں مجمع سمجھتے تھے ندؔیم
غور سے دیکھا تو بس چند ہی دانے نکلے