شعلے نہ بھڑکتے، چلتی نہ ھوا یوں
ہم خاک نشینوں کی جلتی نہ ردا یوں
ہم قوتِ گویائ سے محروم نہیں تھے
واقف تھے کہ جائے گی تم تک نہ صدا یوں
اس طرح گریبان کیا چاک کسی نے
رویا ہے زمانہ کہ ہلا عرشِ خدا یوں
اپنا جو کسی غیر کے پہلو میں جا بیٹھا
اوروں کے رویے سے ذرا دل نہ دکھا یوں
ہم سا بھی کوئ ظرف کا حامل ہے کہیں پر
بس تیری خطاؤں کی سہتے ہیں سزا یوں