محل بنانے کے لیئے گر اک حسیں مقام چا ہیئے
تو گھر بنانے کے لیئے اک حسیں ہم خیال چا ہیئے
یوں تو سجاتے ہیں سب ہی اپنا آشیاں
ہمسفر کو اپنا بنانے کے لیئے دوستی کا پہلا قدم چا ہیئے
بات دل کی زباں پر گر آے نہ آے کبھی
بات کو اپنی سمجھنے کے لیئے اک ہم زباں ہی چا ہیئے
آگ لگے نہ آشیاں جلے نہ دھواں اٹھے کبھی
گھر کو بسانے کے لیئے اک شیریں بیاں ہی چا ہیئے
رنجش ہو تضاد ہو زندگی تو گزر ہی جاتی ہے
گو گھر بہشت بنانے کے لیئے ہم خیال چا ہیئے