ہم زندگی کی کھوج میں اِس زندگی کے پاس
بیٹھے ہوئے ہیں رات سے ہی شاعری کے پاس
مل جل کے چل رہے ہیں غموں کی تلاش میں
دو دن کی بے وفا ہی سہی زندگی کے پاس
یہ کیا ہوا کہ ہو گئے ابلیس کے شکار
رہتا رہا ہے آدمی تو آدمی کے پاس
اپنی ہی دھن میں مست ہیں پتھر نما یہ لوگ
کب تک جئیں گے زہر پی کر دشمنی کے پاس
اک شخص بے وفا تو ہے لوٹے گا وہ ضرور
ملتا ہے اس کو بھی سکوں میری خوشی کے پاس
جب سے سنا ہے چاند سے کرتا ہے پیار وہ
ہم نے بھی ڈیرہ ڈال لیا روشنی کے پاس
قدرت نے وشمہ دستِ مسیحائی کیا دیا
اب زندہ رہنا آ گیا ہے آدمی کے پاس