ہم سفر اپنا ہے نہ رہبر نہ کوئی کارواں
تو بتا اے زندگی جاؤں میں اب تنہا کہاں
کوئی تجھ سا مل نہ پایا اس بھرے سنسار میں
ڈھونڈ کر دیکھا ہے میں نے یہ زمین و آسماں
نیند کیوں آتی نہیں مجھ کو فراق یار میں
ہجرکی راتوں میں وہ بھی جاگتا ہوگا وہاں
کیسے آخر ڈھونڈتا صحرا میں تم کو ہم نشیں
نقش پا سب مٹ چکے باقی نہ تھے کوئی نشاں
یا الہی کیسی ہوں گی رونقیں اس شہر کی
نعمتیں بٹتی ہیں ہر سو خیر و برکت کی جہاں
کام کچھ ایسا تو کر تنظیم ، بن جائے مثال
بعد تیرے یہ جہاں دہرائے تیری داستاں