کئی لوگ پیار کے پیچے پاتے رہتے ہیں
اور ہم سوئے نصیب جگاتے رہتے ہیں
شاید اپنا شمار بھی اہل قلم میں ہو
محفلوں میں اپنا کلام سناتے رہتے ہیں
اب ان سے مراسم نہیں رہے تو کیا
ہر روز انہیں خط بجھواتے رہتے ہیں
ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے
دشمن ہمیں موضوع گفتگو بناتے رہتے ہیں
ان دنوں وہ ہم سے خفا رہنے لگے ہیں
اسی لیے ہم پہ بے بنیاد الزام لگاتے رہتے ہیں
اپنے مقدر کو روشن کرنے کی خاطر اصغر
لوگ خود کو بجلی کے جھٹکے لگواتے رہتے ہیں