ہم سے ملنا ہی نہیں اس کو گوارا کاشی
توڑ لاؤں پھر کیسے کوئی ستارہ کاشی
خدا نے پہلے ہی اسے پریوں سا روپ دیا
خوب پھر اس نے خود کو نکھارا کاشی
وہ نہیں ملتا تو پورا جہاں ہے خفا
ورنہ ہر کوئی کہتا تھا ہمارا ہمارا کاشی
دل ہم تو بچھائے بیٹھے تھے اس کی راہوں میں
اس نے اک بار بھی نہ مڑ کے پکارا کاشی
فقط اس کے لیے ہم محفل میں تماشہ بنے
وہ بولا کہہ دوبارہ پھر دوبارہ کاشی
اس سے بھی کوئی پوچھے کے تجھے مرض ہے کیا
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں آوارہ کاشی
اس کا ساتھ نبھانے کو تو جگ تھا سارا
اس طرف فقط بچا تنہا و بیچارا کاشی