ہم سے کیا ہو گئی خطا یارو
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreہم سے کیا ہو گئی خطا یارو
ہے یہ کس جرم کی سزا یارو
دل میں ہے حشر سا بپا یارو
اِس کے اندر ہے کیا چھپا یارو
دردِ دل اب کسے نہیں ہوتا
دردِ دل کی ہے کیا دوا یارو
اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا ،
یہ بھی گزرا ہے سانحہ یارو
روز لگتے ہیں دل پہ زخم نئے
روز ہوتا ہے یاں نیا یارو
ہم تو ہیں اب بھی جانثار اُس کے
اُس نے کیا کیا نہیں کیا یارو
اُس کی آنکھوں نے پڑھ لیا ہوگا
دل نے چہرے پہ جو لکھا یارو
زندگی تھی تو امتحاں کے لئے
ہو گئی کِس لئے سزا یارو
اُن کا ہر ظلم ہے قبول مجھے
اُن کا ہر ظلم ہے رَوا یارو
چاند حسرت سے تکتا رہتا ہے
یہ جو ہے اُن کا نقشِ پا یارو
ان لبوں کے بھڑکتے شعلوں نے
میرا سب کچھ جلا دیا یارو
دل کو رکھا ہے جس کے قدموں میں
وہ ہی بن بیٹھا ہے خدا یارو
کیوں مری جان کے ہو دشمن تم
میں نے کیا کر دیا بُرا یارو
حالِ دل کس لئے کہوں تم سے
سچ کہو کیا نہیں سنا یارو
اُس نے کچھ تو مجھے بتا دیجئے
میرے بارے میں کیا کہا یارو
ساری دنیا کو پوجنے والے
بن کے بیٹھے ہیں کیوں خدا یارو
وقت پڑنے پہ سچ نہ کہہ پائے
وہ جو ہوتے تھے پارسا یارو
چلتے چلتے ٹھہر گئی سانسیں
آتے آتے وہ رک گیا یارو
دل کی دھڑکن ہی رک گئی ہوگی
اب جو آتی نہیں صدا یارو
جو جی میں آئے وہ سزا دینا
سن تو لو میری التجا یارو
کاش اُس کو بھی کوئی کہہ آئے
میرے دل کا یہ ماجرا یارو
بہتے کاجل نے کہہ دیا سب کچھ
دل کی باتوں کو برملا یارو
مجھ پہ ٹوٹیں قیامتیں کیا کیا
کچھ تو دو مجھ کو حوصلہ یارو
چرکے کیا کیا لگائے ہیں اُس نے
مجھے پھر بھی نہیں گلہ یارو
ہم تو بیٹھے ہیں منتظر کب سے
یہ کہاں رہ گئی قضا یارو
یہ وہ ہی آپ کا ہے اپنا و سیم
مجھ سے رہتے ہو کیوں خفا یارو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






