یہ گجرے باہوں کے
یہ کاجل آنکھوں کا
یہ آنسو پلکوں کے
کیوں ہم پہ ہنستے ہیں ،آوازے کستے ہیں
تکیہ میرے بستر کا
سپنے میری نیندوں کے
کب چین سے سوتے ہیں ۔کیوں شب بھر روتے ہیں ؟
اب قدم مسافت سے بوجھل ہوۓ جاتے ہیں
ہم اپنی ہی آنکھوں سے اوجھل ہوۓ جاتےہیں
دیپک یہ امید کے مدہم ہی نہ ہو جائیں
صحراؤں کے یہ ٹیلے نم ہی نہ ہو جائیں
کس نگر پڑاؤ ہے ،کس دیس ٹھکانہ ہے
منزل ہے کہاں اپنی کس سمت جانا ھے
خوشیاں بھی یہ صدمے بھی، یہ جھلتھل جزبے بھی
اب تیرے سپرد د ہوۓ
اس نیند سے کیا جاگے
ہم صحرا برد ہوۓ