ہم قلم کو نوچکے کئی اشک گرالیتے ہیں
کچھ لوگ غم کو کتنا اچھا لکھ لیتے ہیں
واہ دنیا کی دید تھی جس کو راہ سمجھ بیٹھے
بے سہاروں کے سورج پھر کس طرح ڈھلتے ہیں
پیار اور خوشبوء کو پوشیدہ کرکے دیکھ لو
شگون فال فراق پھر کس طرح بڑھتے ہیں
میں نے اغلب مانگا تھا کہ احتمال کہاں ہوئا
ہاں پھر اس موجد سے ہی مقدر دیکھتے ہیں
ان گنت حق تلفیاں زمانے سے ملی بلکہ
ہر ضرر کو سانس کے کتنا قریب سمجھتے ہیں
قسمت کے ستون ملے تو کہیں گے سنتوش
ابکہ جو حال ہے اسے ہی تقدیر کہتے ہیں