تجھ کو دیکھیں بھی تو خاموش گزر جاتے ہیں
سچ تو یہ ہے تری رسوائی سے ڈر جاتے ہیں
تو نہ آئے تو فضاؤں کو گلہ رہتا ہے
تو جو آ جائے تو موسم بھی نکھر جاتے ہیں
تجھ کو چھو لیں جو ہواؤں کے مسافر جھونکے
تیری خوشبو سے مہکتے ہیں جدھر جاتے ہیں
بکھرے بکھرے ہوئے رہتے ہیں خیابان بہار
تجھ سے ملتے ہیں تو سب پھول سنور جاتے ہیں
عشق کرنا ہے تو پھر جان بھی دینی ہوگی
جانے کتنے تو اسی خوف سے مر جاتے ہیں
آج کل عشق کا دستور بدل ڈالا ہے
اپنے وعدے سے یہاں لوگ مکر جاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے زمانے یہی اے وشمہ
جھوٹ والوں کی زبانوں کے اثر جاتے ہیں
جب کسی جھیل کی گہرائی کو دیکھیں وشمہ
اس کی آنکھوں کے تصور میں اتر جاتے ہیں