دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارے ہونگے
ہم نے صحراؤں کے سینے سے نکالےہونگے
وادیاں آئیں تو آرام سے سو جاتے ہیں
ایسے میں آس کا مل جائے کنارے ہونگے
چاہتے تھے کہ پھریں روئے زمیں پر ہر سو
بن گئے راہ میں غاروں کے نوالے ہونگے
تجھ سے چھٹنے پہ ترے دھیان کی آغوش ملی
کر گیا مجھ کو سمندر کے حوالے ہونگے
اے زمیں سوکھ رہے ہیں ترے پیاسے جنگل
کیا ہوئے ہیں تری آغوش کے پالے ہونگے
کس طرح درد کا طوفاں مرے سینے میں تھمے
کس طرح اپنی روانی کو سنبھالےہونگے
شاید اس طرح تری میری ملاقات رہے
تیری گلیوں میں میں پھرتا ہوںنظارے ہونگے