مجھ کو ناکردہ گناہوں کی سزائیں دی ہیں
پھر بھی منصف کو مرے دل نے دعائیں دی ہیں
مثل گل ہے اسے گل پوش بھلا کیوں نہ کریں
ہم نے کانٹوں کو بھی ریشم کی قبائیں دی ہیں
کس نے بیدار کیا سوئی تمنّاؤں کو آج
کس نے خوابیدہ امیدوں کو صدائیں دی ہیں
میری آنکھوں میں نظر آئے گاساون بھادوں
یوں غمِ ہجر نے آنکھوں کو گھٹائیں دی ہیں
میرے اپنوں نے مری ایسے پذیرائی کی
موم کے جسم کو سورج کی شعائیں دی ہیں
میرے زخموں سے شناسائی عجب تھی اسکو
درد کو کھینچ کے جس نے یہ شفائیں دی ہیں