ہم ہر بات کو بات کے ذکر میں ڈال کر دیکھتے ہیں
ایسی بھی کیا بات ہے جسے فکر میں ڈال کر دیکھتے ہیں
باتوں باتوں میں کچھ باتیں بڑھ نہ جائیں کہیں
کہ باتوں کو اپنے ہجر میں ڈال کر دیکھتے ہیں
اگر کسی بات سے بات بن بھی جائے سنتوشؔ تو
کیوں بات کو یونہی حشر میں ڈال کر دیکھتے ہیں