دل ہی کا نہیں بندھن
درد کا بھی رشتہ ہے
وقت کی مسافت میں
ہوش وآگہی کے اُس اولیں پڑاؤ پر
تنہا رہ گئی تھی تو
تنہا رہ گیا تھا میں
خود کو ڈھونڈتی تھی تو
خود کو ڈھونڈتا تھا میں
سارے عام سے رشتے
صرف نام تھے رشتے
تیرے اور مرے ناتے
تیرے اور مرے رشتے
یہ ہمارا رشتہ ان ناتمام رشتوں کی
تار تار رشتوں کی
آگہی کا رشتہ ہے
چھت تھی اور دیواریں
گھر کہاں ملا ہم کو
اجنبی دیاروں میں روز وشب بِتانے کا
بس تھا آسرا ہم کو
جھیلا ہم نے اپنوں میں دردِناشناسائی
ایک اجنبی سے یہ اجنبی کا رشتہ ہے
درد وکرب کا رشتہ ٹوٹ کیسے سکتا ہے
انگلیوں پہ ہیں میری
تیری آنکھ کے آنسو
اشک میری آنکھوں کے ہیں تری ہتھیلی پر
ہاتھ کیسے چھوٹے گا
چھوٹ کیسے سکتا ہے