ہماری سادگی اور ان کی ہوشیاری نہیں جاتی
حسینوں سے ہم اہل دل کی دلداری نہیں جاتی
بےشمار لوگ مجھ سے گھائل ہو ئےماضی میں
مگر ان دنوں کوئی چڑیا بھی ماری نہیں جاتی
جب سے دیکھا ہے گلاب سا ایک حسیں چہرہ
ہماری آنکھوں سے موتیے کی بیماری نہیں جاتی
شب فرقت میں روتا ہوں چھپا کر چہرہ بستر میں
جب تک کے بیت وہ رات ساری نہیں جاتی
کسی کی ہاں میں ہاں ملاتا نہیں کبھی اصغر
دورحاضرمیں بھی مجھ سےرواداری نہیں جاتی