ہمارے درمیاں ہمدم کہاں کوئی محبت تھی
تجھے میری ضرورت تھی ، مجھے تیری ضرورت تھی
تجھے بھی چاہیے تھا کوئی دل کی بات کہنے کو
مجھے بھی رکھ کے سر رونے کو اک کاندھے کی حاجت تھی
کہے اک دوسرے سے پیار کے جو لفظ رسمی تھے
کسی بھی لفظ کے پیچھے نہیں جذبوں کی شدت تھی
میرے پہلو میں بیٹھا وہ کسی کو یاد کرتا تھا
کسی کا نام لینا نیند میں میری بھی عادت تھی
بھُلا وہ بھی نہ پایا تھا کسی کو لاکھ کوشش سے
کسی کے ہجر میں میری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی
بجا ہے عمر ساری ساتھ وہ میرے رہا عاطرؔ
مگر جیسے کوئی پتھر کوئی مٹی کی مورت تھی