دیوار و در پر، مدتوں پرانی ایک صبح کا منظر ٹہرا ہوا ہے
جہاں ہم رات کے لباس سے، اپنے جسموں کو ڈھانپ رہے ہیں
اس کی آنکھیں اس طرح کھلی ہوئی ہیں
جسے آنکھوں کی اس جھیل میں کئی چاندا ور سورج ڈوب چکے ہں
رقص کی تھکن کو ہم نے اپنے ہاتھوں پر باندھ رکھا ہے
دوستوں کی شور مچاتی گرمجوشی کب کی خاموش ہو چکی ہے
چائے کی ٹوٹی ہوئی پیالیاں اور پھول فرش پر بکھرے پڑے ہیں
اس منظر میں
ہم گہری نیند سے ،جاگتے خوابوں تک سفر کررہے ہیں
دھکتی سانسوں اور پیاسے جسموں کے
نشبہ و فراز کے درما ن کی گئی سرگوشا ں
دریچوں پر کھِلے پھولوں کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے اندھیرے میں
مدغم جسموں سے اٹھنے والی حرارت
اپنی مٹھا س آھستہ آھستہ ہماری روحوں میں گھول رہی ہے
گزرتے وقت کی چاپ سے بیدا ر ہو کر
ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے ملن کی یہ آخری رات ہے