ہمیں بد نام کرنا نہ خیالِ خام ہو جائے
کہیں اس کا مخالف ہی نہ سارا گام ہو جائے
بنا دئیے وضاحت بھوگ لی، جو دی سزا تو نے
کہیں چرچا تیرا دنیا میں سرِ عام ہو جائے
نہیں آتے ہیں تیرے در پہ نہ ہی نامہ بر مِرا
کہیں تو اپنے ہی کوچے میں نہ بد نام ہو جائے
زبانیں روکنا مشکل ہے کبھی مل تو لیا کر
یوں تیرا ترکِ تعلق کہیں الزام ہو جائے
اگر یہ بے رخی تیری ادا رہنی ہے یوں شب بھر
تو کیوں نہ الوداع ہی تجھ سے سرِ شام ہو جائے
اسے کہنا میری دیکھے بنا نہ جان نکلے گی
اے سن بادِ صبا جیسے بھی ہو یہ کام ہو جائے
تو اُس کو حال دینا اس طرح ، کہ تو تو ہے شاہد
کہ اُس سنگدل کا دل ، کچھ دیر کو ہی رام ہو جائے
اُسے کہہ دو کہ اُس کا گورکن مصروف ہے کچھ دن
قتل ہم کو کرے وہ ، پہلے انتظام ہو جائے
اماوس رات رک جا، نہ بجھائے مجھ کو زمانہ
چراغِ سحری بجھ جا ، اس سے پہلے بام ہو جائے
میرے حالات سن کے خوش نہ ہو وہ ، اس لئے ریاض
دعا کر میری زندگی کا اختتام ہو جائے