ہم کب سے بے خود ہونے لگے ہمیں بھی خبر نہ ہوئی
ان دیکھی راہوں میں کھونے لگے ہمیں بھی خبر نہ ہوئی
کسی کی ذات سے وابستگی سی محسوس ہونے لگی ہے
کب کیسے اور کیوں اس بات کی ہمیں بھی خبر نہ ہوئی
کہ جن کے نام سے بھی یہ دل کبھی واقف نہیں رہا ہے
انکے بنا زیست کیوں مشکل ہوئی ہمیں بھی خبر نہ ہوئی
اجالوں کی گھڑیوں کا انتظار کرتے کرتے کٹ ہی گئی
شب فراق کچھ اس ایسے کہ ہمیں بھی خبر نہ ہوئی
عظمٰی ہمیں اک بیگانے سے شہر کے انجانے راستے
کیسے اپنے سے لگنے لگے ہمیں بھی خبر نہ ہوئی