ہمیں تو بنایا تھا خدا نے عشق درمیاں رکھ کر
چلتی رہی بیس برس چاہت کا سر پہ آسماں رکھ کر
نابینا ہی رہیٗ کچھ تو دے گئی بے خودی مجھے
دل میں یقینِ خدا رکھا ٗ لب پہ فغاں رکھ کر
اشک نکلے تو رُخسار سے ہی پی لیے میں نے
درد نکلا تو پھر لے لیا میں نے دلِ ناداں رکھ کر
وہم و گمان سے نکل کر چلے آ ؤ بحرِ بے کراں بن کر
مجھے جانا ہے سنسار سے پریت کی داستاں رکھ کر
کہ میں ڈوبنے پہ ہوں ، خاور سے باختر چلے آ ؤ
مجھے فناہ نہ کر دےآشفتگئ اِنتظار بے زباں رکھ کر
آ شوبِ حیات نے توڑ ڈالا ہے تمہارے بغیر مجھے
اِک سعادتِ دیداردےجاؤ زمانے پہ خودکوعیاں رکھ کر
اے! گمشدہ محبت مل جا کہ مَنتیں پوری کر دوں
موت کچل نہ دے مجھے یونہی بے ایماں رکھ کر