ہو پیاس سلامت مئے گلفام بہت ہے
مے خانہ بہت ساقی بہت جام بہت ہے
ان تافتہ زلفوں کو پریشاں نہ کرو تم
اے جان ستم گردش ایام بہت ہے
کیوں طور پہ موقوف ہو باران تجلی
اس جلوۂ تاباں کے لئے بام بہت ہے
اک وہ ہیں کہ ہر ظلم روا ان کے لئے ہے
اک آہ بھری میں نے تو کہرام بہت ہے
آزادیٔ پرواز پہ اترا نہیں بلبل
گلشن کی فضاؤں میں ابھی دام بہت ہے
کچھ سوچ کے امواج تلاطم میں پڑا ہوں
یہ سچ ہے کہ ساحل پہ تو آرام بہت ہے
آسان نہیں جادۂ عرفان محبت
ہر گام رہ شوق میں ابہام بہت ہے
کیوں مجھ کو صدا دیتا ہے افلاک سے ہاتف
اس انجمن گل میں ابھی کام بہت ہے
مت بیچ اسے مصر کا بازار سجا کر
اس یوسف ہستی کا سحرؔ دام بہت ہے