ہو گیا جھگڑا ہے یار جانی کے ساتھ
کچھ میسر نہیں دال پانی کے ساتھ
آج کے بعد کچھ بھی نہیں کھاؤں گا
بات سن لو یہ یادِ دہانی کے ساتھ
کچھ آتا نہیں ہے سلیقہ اسے
پاس کیسے رکھو پاسبانی کے ساتھ
خط لٹا دو مرے پاس ہیں جو ترے
مجھ کو ملتا ہے یادیں پرانی کے ساتھ
موت سے پہلے ہی موت آئی اسے
کیسا صدمہ ہوا نا گہانی کے ساتھ
موت ایسے نہیں آئی مر جو گیا
زہر اس نے تو کھائی ہے پانی ساتھ
آتی چہرے پہ ان کے ندامت نہیں
ملتا شہزاد ہے خوش بیانی کے ساتھ