ہوئے ہوئے نہ ہوئے، کون سا کمال ہوئے
جو کام ہر کسی حالت میں ہی وبال ہوئے
جچے ہیں اُن کی نگہ میں تو آئنے تُو بھی
اُٹھا یہ عکس کہ ہم صاحب جمال ہوئے
یقین کیوں نہیں قربت کا آپ کی ہوتا
کہ آپ آپ نہیں ہو، مرا خیال ہوئے
نہ ابتدا میں تھی مُشکل، نہ انتہا میں ہوئی
جو درمیان رہے مرحلے محال ہوئے
یہ کیا ہوا ہے کہ جزبات تھم گئے اک دم
ذرا سی دیر جو رہتا ہے وہ اُبال ہوئے
جواب اُن کو پتہ تھے ، سو چُپ رہے ہم بھی
اُنہیں سوال ہی کرنے تھے، پھر سوال ہوئے
انا کے خول سے اظہر نکل بھی آؤ کہیں
ہمیں فراق نے مارا ہے ہم نڈھال ہوئے