ہوا سے دھند کا جیسے حصار ٹوٹتا ہے
یہ زعم ِ دل بھی سر ِ کوۓ یار ٹوٹتا ہے
کبھی کبھی مجھے ہوتی ہے دشمنوں کی طلب
کبھی کبھی تو کوئی اعتبار ٹوٹتا ہے
وہیں پہ آنکھ خیالوں کو گانٹھ دیتی ہے
جہاں پہ خواب کے آنچل کا تار ٹوٹتا ہے
اسے کہو کہ بدن کو سمیٹ کر سوۓ
کہ ضبط ِ گردش ِ لیل و نہار ٹوٹتا ہے
رقابتوں کا تسلسل ہو جیسے اب یہ حیات
میں پھول شاخ سے کھینچوں تو خار ٹوٹتا ہے
پھر اک سرے سے میں گِنتا ہوں اپنی وحشت کو
ستارہ پھر کوئی زیر ِ شمار ٹوٹتا ہے
کسی کے ہجر کو سولی اگر چڑھاتے ہیں
ستون گرتے ہیں افسون دار ٹوٹتا ہے
ستم تو یہ ہے کہ نکلیں ، جو دشت ِ حبس سے ہم
عذاب ِ گرد تو کرب ِ غبار ٹوٹتا ہے
اسے نہ جوڑ سکے گا وصال ِ صبح کوئی
وہ آئینہ جو شب ِ انتظار ٹوٹتا ہے
کہاں تلک کوئی پیوند کاریاں جھیلے
یہ حوصلہ ہے میاں بار بار ٹوٹتا ہے
ہے دل کے کمرے میں آسیب کوئی یادوں کا
کواڑ کھلتے ہیں شیشے کا جار ٹوٹتا ہے
وہ حال پوچھ لے تو درد کوچ کر جائیں
وہ ہاتھ نبض پہ رکھ دے بخار ٹوٹتا ہے
اس ارتکاز کو کہتے ہیں مئے کشی شاید؟
پلک بھی جھپکے کوئی تو خمار ٹوٹتا ہے
عجب سیاسی مسائل کا سامنا ہے ضمیر
عدو کو ساتھ ملاؤں تو یار ٹوٹتا ہے