ہوا کے چلتے ہی بادل کا صاف ہو جانا
جو حبس ٹوٹنا بارش خلاف ہو جانا
مرے خمیر کی دہقانیت جتاتا ہے
یہ تم سے مل کے مرا شین قاف ہو جانا
غرور حسن سے کوئی امید مت کرنا
خطائیں کرنا تو خود ہی معاف ہو جانا
میں تیز دھوپ میں جل کر بھی یاد کرتا ہوں
وہ سرد رات میں اس کا لحاف ہو جانا
مجھ ایسے شخص کو روشن ضمیر کر دے گا
وہ بے قرار ہے یہ انکشاف ہو جانا