سخن کے غنچے کھلا رہی ہوں
بہار بن کے میں چھا رہی ہوں
گلاب لے کر حسیں غزل کے
میں آج محفل میں آ رہی ہوں
حسین لفظوں کی تتلیوں کو
سخن کی صورت اڑا رہی ہوں
میں جگنو بن کے چمک رہی ہوں
میں چاند سی جگمگا رہی ہوں
ہواؤ ! چھو لو مری مہک کو
میں اپنی سوچیں لٹا رہی ہوں
یہ گیت میرے ، یہ میری غزلیں
انھیں میں سب کچھ سنا رہی ہوں
پکارا تم نے تو نام میرا
میں کس لیے مسکرا رہی ہوں
لو دیکھ لو آنکھ بھر کے مجھ کو
رقیب چلمن ہٹا رہی ہوں
سمجھ لو کیوں دیکھ کر تمھیں یوں
میں اپنی پلکیں جھکا رہی ہوں
تمھارے خوابوں کی منتظر ہوں
جبھی تو خود کو سلا رہی ہوں
نوٹ:- اس ویب کی ایک معزز و محترم شاعرہ کی ایک غزل کی تعریف میں انھیں کی زمین میں یہ غزل تحریر کی تھی جو شاید ان کی نظر سے اب تک نہیں گزر پائی۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچا اسے اپنے سب پڑھنے والوں کے لیے الگ سے آن لائن کر دوں ۔ سو ذرا سی ترمیم و اضافے کے ساتھ اسے آپ سب دوستوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ