ہوش میں رہتے، خبر رہتی مگر اس عشق میں
میری شاہی بھی گئی اور راجدھانی بھی گئی
جستجو میں تیری چلتے چلتے مَیں اتنا چلا،
عمر بیتی اور میری یہ جوانی بھی گئی
مرکزی کردار تھا میری کہانی کا وہ شخص
وہ گیا اور ساتھ ہی اُس کے کہانی بھی گئی
ہم نے یعقوب کی سنت نبھائی ہے کہ ہم
اِس قدر روئے کہ اشکوں کی روانی بھی گئی،
زندگی نے آج سب کو اس قدر الجھا دیا
وہ تکلف بھی گیا وہ میزبانی بھی گئی